Hakeems

Hakeems.pk logo

خواہشات، خیالات اور حوصلہ…… آپ کی روحانی صحت کیلئے ضروری باتیںSpiritual Helath

خواہشات۔خیالات۔حوصلہ
یہ ایک پرانی ضرب المثل ہے کہ “جوکچھ آدمی دل میں سوچتا ہے،وہی وہ ہے۔ مقولہ بظاہر ناممکن اومضحکہ خیز سا معلوم ہوتا ہے اور شاید بالکل سچا بھی نہیں ہے”جوکچھ انسان اپنے دل میں سوچتا ہے، وہ ویسا ہی بن جاتا ہے۔یہ زیاد ہ واضح ہے۔ اور ہر ایک سمجھدار اس کی حقیقت سمجھ سکتا ہے۔کئی دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں۔ کہ یہ ضرب المثل کس طرح صحیح ثابت نہیں ہوتی کہ انسان کے خیالات کاا سکے جسم پر کیسے اثر پکڑ سکتا ہے۔ اور اس کے گرد درپیش کے حالات پر کیونکر ان خیالات کا اثر ہو تا ہے۔بہت سے قیاسات پیش کئے جاتے ہیں جن سے ایسے شخص کی تشفی نہیں ہو سکتی۔جو نتائج سے قائل ہوناچاہتا ہے۔قیاس کے جانچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس پر لگا تار عمل کیا جائے اور غور سے دیکھتے رہیں، آیا خیالات جسم اور گردوپیش کے حالات کو بدل ڈالتے ہیں یا نہیں؟
تھیوری(قیاس)سے بہت کچھ مدد مل سکتی ہے۔ اس پر ایک صاحب بہت ہی مدلل انداز میں خیال پیش کرتے ہیں کہ جو عظیم قوت ہمارے اندر اور باہر کی متعلقہ چیزوں کو ترتیب دیتی ہے۔شکل نہیں اور جہاں تک ہمار ا تعلق ہے جو کچھ ہم اعتقاد سے اس سے چاہتے ہیں، وہ ہمارے ویسے طے کر دیتی ہے یہ ہمارے واسطے ویسی ہو تی ہے جیسی کہ ہم اس کو خیال کر تے ہیں۔اِس واسطے ہمارا پہلا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ اس قوت (شکتی)کو ایک معیاربنالیں اسے اپنے مددگار مہربان، صحت بخش اور راحت رساں تصور کریں۔پھر خوداس قوت کی مانند بننے کی خواہش دل میں قائم کر لیں۔خیالات کو فضول مت سمجھیں، وہ حرکت قلب اور دورہ خون، قیاس، خون کی حالت، اعصاب، قوت ہاضمہ اور فضلہ پرجو جسم سے خارج ہوتا ہے گہرا اثر ڈالتے ہیں۔وہ آواز، شباہت، رفتار،گفتاراور جسم کی عام حالت کو موثر بناتے ہیں۔
ایک مغربی پروفیسر نے اسے ثابت کرنے میں بہت سعی اور تندہی سے کام لیا ہے، انہوں نے ترازو نکالی تھی۔جسے ڈاکٹر ڈبلیو۔جی اینڈرسن نے اور بھی مکمل کیا ہے، ایک آدمی مشین پر لیٹ جاتا ہے اور کسی مسئلہ پر غور شروع کرتا ہے۔شروع میں آدمی معمولی طور پر اس چارپائی پر پڑا رہتا ہے۔اس کا سر اور پاؤں ایک سطح پر رہتے ہیں۔(بسٹرا قبضوں پر رکھا ہوتا ہے)پھر آہستہ آہستہ اس کا سر نیچے کو لڑھکتا جا تا ہے اور پاؤں اُوپر کو اُٹھتے جاتے ہیں، وچار کرنے سے اس کے دماغ میں اجتماع خوان واقع ہو جاتا ہے۔اس کے بعد بجائے سوچنے کے وہ صر ف اپنے خیا ل میں ناچنا شروع کر تا ہے، چونکہ تخیل بدل جاتا ہے تو اسکی ٹانگوں اور پاؤں کی طرف بکثرت خون اُتر جاتا ہے۔اس کے پاؤں نیچے کو اور سر اُوپر کو اُٹھتا جا تا ہے۔ورزش کے تصور سے دورہ خون کی حالت بدل جاتی ہے اسی طرح اگر کسی معیار پر غور کرو تو تمام جسم بدل جاتا ہے۔
اس واسطے سب سے پہلا قاعدہ یہ ہونا چاہیے کہ عمدہ ترٰین اشیا ء کا دل میں تصور باندھو۔اور عمدہ ترین چیزوں کی بابت سوچو اور اعلیٰ معیار کی خواشات اپنے دل میں رکھواور بہترین کام کرنے اور عمدہ ترین اشیاء حاصل کرنے کی خواہش کرو۔ہمیں اپنے آپ کو قا ئل کرنا چاہیے کہ ان چیزوں کا حصول ہر طرح سے ضروری ہے اور ان کے حصول کی خواہش کرنے کی عادت بنا لینی چاہیے۔
ممکن ہے شروع میں یہ خواہش گہرے وہم، صرف معمولی قسم کی کامیابی مثلاً امتحان پاس کرنے یا جسمانی کرتبوں کے مقابلہ میں کامیابی رہنے کی خواہش کر سکتے ہیں۔چونکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی کامیابی کی خواہش ہمیں سیدھے راستے پر پہنچاتی ہے۔اس واسطے انہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جائے اور ایسی خواہش ابتدائی زینہ کا عمدہ کام دے سکتی ہیں۔تم اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی فہر ست بنا لو۔یعنی جیسا تم بننا چاہتے ہو یا جن باتوں کے حصول کی خواہش ہو ان کی فہرست بنا ڈالو۔ان کی خواہش کرو اور پھر ان کے حصول کے وسائل اختیار کرو۔
جس قابل رقعت بڑے شخص کی مانند تم بننے کی خواہش کرتے ہو اس کی بابت تمام باتیں تمہیں بخوبی معلو م ہونی چاہیں۔اگر ضرورت ہو تو وقتاً فوقتاً اپنا معیار بد ل سکتے ہو۔اس کی تبدیلی کی خواہش مت کرو۔گاہے گاہے اس معیار کی بابت اپنے خیال کی تجدید اور تحریک کرتے رہو کچھ مضائقہ نہیں۔خواہ وُہ تم سے کسی قدر بڑا ہو۔
حقیقی مثالوں سے اس کو محسوس کرو۔اگر تم آہنی (مضبوط)قوت ارادہ حاصل چاہتے ہوتو نپولین اعظم کو اپنا معیار رکھ سکتے ہو۔کیونکہ اس کی قوت ارادی سب انسانوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھی۔اگر تم اہر فن مولا بننے کی خواش رکتھے ہو توبنجمن فرنیکلن (امریکہ کا ایک بہت نموار شخض تھا) کونمونہ بناؤ۔اگر تم لطافت ق ظرافت کا مذاق پیدا کرنا چاہتے ہو تو مارک ٹوین(امریکہ کا ظیرف ناول نویس۔جو ظریفوں کے شاہزادہ کے نام سے مشہور ہو گیا ہے)یا کسی دُوسرے شخص کو نمونہ بناؤ۔
ہر ایک سخص سے کوئی نہ کوئی عمدہ بات سیکھ لو۔ اسے عیُوب سے چشم پوشی کرو۔یہاں وہ ضروری نوٹ بیان کرنے لازمی ہیں۔اول بڑے بڑے مشہور اور نیک چلن اشخاص کی سوانح عمرایاں پڑھو۔ہر جگہ کتب خانوں میں بیسیوں قسم کی سوانح عمریاں پائی جاتیہ ہیں۔اور اہاں اگار تم نیکی اور راستباری کی تصویر اپنے ذہن میں قائم نہیں کر سکتے تو تم نیک راستبار شخص کی تصویر قایم کرو۔جس کی رفتار گفتار اور روزہ مرہ زندگی سے نیکی اور پاکیزگی ظاہر ہوتی ہو۔
اپنے معیار کی ماند بینے کے خواشمند بنو۔امید رکھو کہ تم اس کی مانند ہو جاؤ گے۔اور دوشواش کور کہ تم روزبروز اس نمونہ کی مانند بنتے جاتے ہو۔ہر امر میں امیدوار رہنے کے کئی وجوہات ہیں۔امید کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔مثلاً بڈھے آدمی کو امید لگانی چاہیے کہ وہ رفتہ رفتہ اپنے جسم کو پھر تیا ر کر سکتا ہے۔جسم ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور اجزا ء ذرات جسم سب بدلتے رہتے ہیں۔تمام خون۔رطوبتیں۔فضلات بدلتے رہتے ہیں۔اس کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ عمدہ خالص،تازہ ہوا پھیپڑوں میں داخل ہو تی ہے۔اور بہتر خوراک کھائی جائی ہے۔عمدہ خیالات کو دل میں جگہ دی جاتی ہے۔اور کہ وُہ گندی اور ناپاک ہو ا لو باہر نکالتا ہے۔برُی غذا اور بُرے خیالات سے پرہیز کرتا ہے۔علیٰ ہذا القیاس تو ایسی تبدیلیاں ا س کے کل جسم اور جسم کے ہر ایک جزو کو بد ل دیں گی۔
اس خیال قائم کر کے اور میار بنا کر وُہ اس کے نزدیک اور نزدیک آ رہا ہے۔ اس کو قواعد اور طریقہ بنالینے چاہئیں۔اور ان پر عمل کرنا چاہیے۔مثلاً خاص قسم کی ورزش کرنا۔خاص قسم کی خوراک کھانا اور خاص طریقہ سے غذا تیا کر کرنا۔عمل کے واسطے اس کو عمدہ جگہیں اور عمدہ وقت مقررہ کرنا چاہیے۔ تمہیں تیار نوالہ نہیں مل سکتا۔جو طریقے ایک انسان اپنے لئے آپ نکالتا ہے وُہ اس کے واسطے دُوسروں کے بنائے ہوئے طریقوں سے بہت بہتر ہیں۔
اس بات کا بھی خیال رہے کہ تمہارا عمل اورورزش تمہاری خواہشات کے مطابق ہو جیسا کہ اُوپر بھی ذکر کر چکا ہے۔ خواہشات دو قسم کی ہونی چاہئیں۔ایک تو ایسی اعلیٰ ترین قسم کی خواہش مثلاً بنی آدم کو فائدہ پہنچانا۔اور دوسری ادنی قسم کی خواہشات۔جیسے جسمانی طاقت کے مقابلہ میں کامیابی۔تمہیں اِن خواہشات پر غور کرنا چاہیے۔اور دل میں خیال کرنا چاہیے کہ انہیں حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔اور اسی وجہ سے ان کے حصول کی بھی تدابیر اختیار کرنا چاہیے۔
سب سے زیادہ مدد حصول مقصود میں قوت ارادی س مل سکتی ہے۔چارلیس لینڈکہتا ہے کہ قوت ارادہ سے کام کرنے میں بہت تحریک پہنچتی ہے ہم سب کا دانستہ طور پر اس سے کام لیتے ہیں پہلے ہی سے دل میں کسی کام کی خوبی کی بابت ٹھان لینا بہت مناسب ہوتا ہے۔اس سے استعمال کے وقت بہت تقویت ملتی ہے۔اس چیز کو ضرور حاصل کرنا چاہیے۔”اس سے میرا مطلب ہو گا”اور مجھے بہت قوت ملیں گی۔اس قسم کے خیال سے ضرور تحریک پہنچتی ہے۔ اور مقوی دوا سے بڑھ کر ثابت ہو تی ہے۔اس پر کچھ بھی خرچ نہیں ہو تا ہے۔جب چاہو اس سے کام لو۔یہ ہر وقت تمہارے پاس موجود رہتی ہے۔
انسا ن کو اپنی خواہشات میں محتاط ہونا چاہیے۔اور ہر کس و ناکس سے اُن کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔صر ف اپنے ہی سینہ اور دل کے اندر تمام آرزؤں کو مقفل رکھنا چاہیے۔جبکہ وہ محتاط ہے اس کو عمل میں سنجیدہ ہونا چاہیے اور باقاعدگی سے کام کرنا چاہیے کیونکہ یہ کام فرض منصبی سے کم نہیں ہے۔کیونکہ اس کا انتہائی مقصد صحت حاصل کرنا ہے۔سب سے پہلے انسان کا فرض بجانب خدا ہے۔اس کا فرض یہ ہے کہ خدا جیسا بنے اور اس کی مانند نظر آئے۔اس کے بعد اس کا فرض۔بجانب دیگراں مع اپنی پود کے ہے۔کیونکہ وہ اپنی اولاد پر ضرور اثر ڈالیگا۔اور وُہ آنے والی نسل پر بھی اثر ڈالیگا۔کیونکہ وُہ اپنی یادگار اپنے دوستوں کے درمیان چھوڑ جائے گا۔اس کا اثر اس کی موت کے بعد قائم رہے گا۔وُہ اپنا اثر اپنے پاس پڑوس اور محلہ والوں اور اولادپر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتا۔خواہ وُہ چاہے یا نہ چاہے۔صحت اور تمام جسمانی و عقل وقواء اردگرد اثر ڈالنے میں معتدی ہیں۔اس واسطے انسان کی خواہش ہونی چاہے کہ پندود عظ کی بجائے عمدہ خوشگوار اثر ڈالے۔آجکل زبان اور قلم کی باتوں کا طوفان اُمنڈ چلا آتا ہے۔عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں دی جاتی ہے۔یعنی لوگ اپنی عمدہ اور پاکیزہ اور قابل نمونہ زندگی بنانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔زبانی تعلیم مت دو۔بلکہ جو کچھ تم لوگوں کو سکھانا چاہتے ہواس کے مطابق اپنے آپ کو بنا کر دکھاؤ تو بات ہے۔یہی سب سے بڑی کارگر تعلیم ہے۔تصور ضرور باندھو۔یہ ضروری ہے کہ اس پر اکتفا نہ کرو۔بلکہ منصوبہ باندھو۔اور اسے عمل کا جامہ پہناؤ۔جس قدر مکمن ہو۔اس پر عمل کرو۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *